https://blog.toobaafoundation.com/wp-content/uploads/2023/10/Dua1-01.png
دعا مانگنے کا طریقہ :حضرت امیر محمد اکرم اعوانؒ
اسلام نے مسلمانوں کو ایک بہت بڑی طاقت دی ہے اور وہ ہے دعا ،استغاثہ، ہمارے ہاں بد قسمتی سے دو طبقے وجود میں آگئے ہیں ایک وہ جو سرے سے دعا کے قائل بھی نہیں اگر ہم مانتے ہیں تو شرما شرمی دیکھا دیکھی انکار نہیں کرتے لیکن اپنی عملی زندگی میں ہم اس کے قائل نظر نہیں آتے چونکہ اس طرح ہم دنیوی اسباب کے پیچھے اس شدت سے بھاگتے ہیں حتی کہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ لوگ سفارش کے لئے آتے ہیں اگر کسی سے یہ کہہ دیا جائے کہ اس افسر سے واقفیت تو نہیں ہے آپ کے لئے اللہ کریم سے دعا کرتے ہیں تو وہ خفا ہو جاتا ہے کہ آپ میری مدد نہیں کرنا چاہتے یعنی عوام میں ایک طبقہ ایسا ہے جس کے نزدیک دعا کی کوئی حیثیت نہیں ہے ایک فارمیلٹی یا ایک طریقہ کار بطور توارث ہے اگر کبھی کر لیا کر لیا ورنہ اس کی ضرورت نہیں مجھے اپنے حضرات سے بھی اتفاق نہیں جو بات بات پر دعا کے لئے کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں انہیں دعا کی اہمیت کا ادراک نہیں یعنی دعا کوئی مذاق بھی نہیں ہے کہ آپ وقت بے وقت چاہیں نہ چاہیں کسی حال میں بھی ہوں دعا ہی کرتے رہیں یہ بھی بہت مشکل کام ہے اگر کوئی سمجھتا ہو دعا واقعی اللہ کریم سے درخواست کرنے کا نام ہے تو اس کے لئے مواقع اورآداب کی ضرورت ہوتی ہے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دعاکے قائل اس حد تک ہیں کہ پھر ان کے لئے کوئی اورکام کرنے کی ضرورت ہی نہیں یعنی بالکل ہی جھگی ڈال کربیٹھے رہنا اور محض دعا پر جم جانا یہ بھی غلط بات ہے۔
یہی بات یہاں ارشاد فرمائی آپ دیکھئے سب سے مستجاب الدعوات ہستی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ لوگ ہیں جنہیں آپ اہل بدر کے نام سے یاد کرتے ہیں انہوں نے مدینہ منورہ میں تو دعا نہیں کی کہ ان کافروں کو شکست دے دے۔ مدینہ منورہ سے جو کم و بیش اسباب و ذرائع تھے تھوڑی سواریاں تھیں تھوڑا اسلحہ تھا تھوڑا راشن تھا تھوڑے ساتھی تھے کمزور تھے طاقتور تھے انہیں ساتھ لیا ڈیڑھ سو کلو میٹر دور میدان بدر تک رمضان المبارک میں پیدل اور ان ٹوٹی پھوٹی سواریوں پر اور ان تمام مصائب کو برداشت کرتے ہوئے بدر میں اپنا خیمہ لگا کر وہاں کفار کےمقابلے میں صف آرا ہوئے۔
ایک طرف ایک ہزار کا مسلح کیل کانٹے سے لیس اور خوب تیاری پکڑے ہوئے چنے ہوئے خوبصورت جواں مرد صف آراء ہیں دوسری طرف تین سوتیرہ جن میں کچھ بوڑھے ہیں کچھ بچے ہیں لیکن اس حال میں بھی وہاں صف آراء ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دست دعا اٹھائی ۔
دعا کا سلیقہ یہ ہے کہ تعمیل ارشاد کے لئے اپنی کوشش پوری کی جائے اور اپنی کوشش پوری کرنے کے بعد عرض کیا جائے کہ بار الہا مجھے پتہ ہے میں عاجز ہوں مجھ سے یا میری کوششوں سے نہیں ہو گا کرنا آپ ہی کو ہے یہ جو میں نے اسباب اختیار کئے ہیں یہ بھی آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے آپ کی اطاعت کے لئے کئے ہیں۔آپ کا کام ہے کہ آپ میرا مقصد حل فرما دیں۔
فرمایا  إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ  یاد کرو اور میں جب تم اپنے رب کو پکار رہے تھے اللہ کریم کے اس ارشاد سے ایک معنی یہ بھی نکلتاہے کہ دعا کا سلیقہ یہ ہے اہل بدر کو دیکھو۔
ہم کہتے ہیں اللہ ہماری دعائیں سنتا نہیں ہے، ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں، میرے خیال میں ہم دعا کو اس کے آداب کے ساتھ کرتے بھی کم ہیں یعنی محض چکتے ہوئے  گپ ہانک دیتا دعا نہیں ہوتی ۔دعا یہ ہوتی ہے کہ آپ اس کے لئے جو وسائل آپ کے اختیار میں ہیں جو اسباب آپ کے اختیار میں ہیں وہ اختیار کریں اور پھر نہایت خلوص کے ساتھ اپنا عجز اپنی بے کسی اللہ کے حضور پیش کر دیں کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکے گا آپ ہی کر دیں یہ فرمایا جب تو نے اپنے رب کو دعا کے ذریعے پکارا استغاثہ کیا ۔
فَٱسْتَجَابَ لَكُم اس نے تمہاری دعا قبول کرلی یعنی بات تو ہے دعا کرنے کی اب یہ کوئی کہے کہ وہاں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اہل بدر تھے ان کی دعا قبول ہو گئی ہر ایک کی دعا تو قبول نہ ہو گی۔ اللہ فرماتے ہیں میں ہر ایک کی دعا قبول کرتا ہوں ۔ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اگر میرے بندے میرے بارے آپ سے جانا چاہیں انہیں کہہ دو کہ سب سے قریب تر تمہارے میں ہوں خالی قریب اور اس قرب کا کیسے پتہ چلے گا بندوں کو کہ واقعی ہمارا رب ہمارے پاس ہمارے قریب تر ہے
فرمايا أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ  میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کر لیتا ہوں کب ؟ إِذَا دَعَانِ جب وہ مجھ سے واقعی دعا کرتا ہے واقعی دعا کا مطلب یہ ہو گا کہ دعا کے آداب اور اس کے ضوابط کے ساتھ جب وہ دعا کرتا ہے مذاق کرنا تو کوئی دعا نہیں ہے۔ اسے دعا نہیں کہتے کہ ہم وزن یا ہم قافیہ الفاظ جوڑ لیتے ہیں لوگوں کو سنانے کے لئے اونچے اونچے پڑھتے رہتے ہیں مزے لے لے کر آمین آمین کہتے رہتے ہیں یہ تو ایک دوسرے کے ساتھ باتیں ہیں کوئی شعروں میں کر رہا ہے کوئی نظم میں کر رہا ہے یہ تو اگر میں کر رہا ہوں تو میں آپ سے داد وصول کرو توآپ مجھے خوش کر رہے ہیں دعا کا یہ طریقہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا کہ دیکھیں سب سے بڑی ہستی ساری تخلیق میں بے مثل اور بے مثال اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم۔
آپ نے پورے وسائل اسباب جمع فرمائے سفر فرمایا تکلیف فرمائی بدر کی وادی میں کفار کے روبرو صف آرا کر کے احباب کو ہاتھ اٹھا دئیےکہ بارالہا کیسی عجیب دعا کی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں سارے کا سارا اسلام بدر میں لے آیا ہوں اگر یہ لوگ یہاں مارے گئے یہاں کھیت رہے  تُعْبَدُ في الأرضِ أبدًا اے اللہ قیامت تک کوئی پیشانی تیرے نام پر جھکنے والی نہیں ہو گی کوئی بتانے والا نہیں نہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ کوئی بات چلے گی تو نے تو نبوت ختم کر دی
اللہ کریم فرماتے ہیں  فَاسْتَجَابَ لَکُمْ  دیکھو تو نے دعا کی میں نے قبول کر لی تو قبولیت کی شرط آداب دعا پر ہے اللہ کریم محتاج نہیں ہے کہ کسی سے اجازت لے کر دعا قبول کریں یا جو کچھ عطا کرتا ہے کسی کے تعاون یا کسی کے مشورے کی ضرورت ہے کسی سے مانگ کر نہیں دیتا ہے انہیں کسی سے صلاح نہیں کرنی ہے فرمایا اگر دعا قبول نہ ہو تو سمجھو تم نے دعا نہیں کی دیکھو تم نے دعا کی ۔ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ  جب تم نے اپنے پروردگار کو پکارا فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اس نے تمہاری دعا قبول کر لی ۔ اور فرمایا اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ اگر مشرکین مکہ کا ایک ہزار جوان فارمیشن میں آ رہا ہے یعنی ایک خاص ترتیب میں آ رہا ہے جنگی ترتیب کے لحاظ سے تو میں ایک ہزار فرشتے اسی فارمیشن یا اسی جنگی ترتیب میں بھیج دیتا ہوں بات ختم یعنی فرشتہ تو ایک بھی کافی ہے کہ جب لوط علیہ السلام کی قوم غرق ہوئی تو ان کے مرکزی شہر کے بارے فرماتے ہیں اس کا نام سدوم تھا تو اس میں ڈھائی لاکھ جو ان ایسے تھے جو جنگ کے قابل تھے
جہاں اڑھائی لاکھ جنگ کی اہمیت رکھتے ہوں وہاں بوڑھےبچے عورتیں اور نا اہل جو جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے ان کو دیکھیں تو کم از کم پندرہ میں لاکھ کی آبادی بنتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈھائی لاکھ جوان تو شاید ہمیں کراچی سے بھی نہ ملیں ۔ایک ہی فرشتے نے وہ چار یا پانچ شہر پر دے کر ایسے اٹھائے کہ تحت الثری تک زمین کا پورا طبقہ اکھیڑ لیا اور حدیث شریف میں ہے کہ آسمان کے اتنے قریب لے گئے جہاں سے مرغ کی اذان کی آواز آتی ہے آسمان کے اتنے قریب لے جا کر وہاں سے الٹ دیا نیچے والی جو طرف تھی اوپر کر دی اوپر والی نیچے کر دی اور آج تک اس جگہ بحیرہ مردار ہے اور آج تک اس جگہ غلیط پانی ہے کہ اس میں کوئی جراثیم کوئی جرم زندہ نہیں رہتا اس میں نہ کوئی مینڈک ہے نہ کوئی مچھلی حیات کا تصور نہیں ہے اس پانی میں ابھی تک اس لئے اس  DEAD SEA یا بحیرہ مردار کہتے ہیں اگر ایک فرشتہ اتناکچھ کر سکتا ہے۔
فرمایا تمہارے ذہین میں ہے کہ اللہ یہ تو ایک ہزارہیں تو چلو ہم بھی ہزار بھیج دیتے ہیں یہاں کیا دیر لگتی ہے بھئی ہزار کا مقابلہ ہزار سے سہی اور اگر وہ اس جنگی ترتیب کے مطابق ہیں یا انہوں نے اپنی ایک فارمیشن بنا لی ہے قلب ہے ہے میسرہ ہے یہ ہے وہ ہے تو ہم بھی ویسا ہی شکر سجا سجایا اسی ترتیب کے ساتھ مزد فین  ردیف یکے بعد دیگرے یعنی ایک ترتیب کے ساتھ بھیج دیتے ہیں اور یہ فرشتوں کا آنا جو ہے یہ دو باتوں کی دلیل ہےایک وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰییہ تمہارے لئے اللہ کی رضامندی اور ظاہری طور پر  دنیوی فتح کی بشارت کا سبب ہے یعنی فرشتوں کا آنا ہی خوشخبری ہے اور دوسرا یہ ہے وَلِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ کہ اس سے تمہارے دلوں کواطمینان نصیب ہو ۔
یہ عجیب بات ہے کہ قلوب کے اطمینان کا تعلق نزول مائیکہ اور اسکی نسبت اور ایسے حال سے ہے جس میں ملائیکہ کو فرحت نصیب ہو اور وہ اس کے قریب تر ہوں اور دل کی پریشانی کا بنیادی سبب شیطان کے ساتھ اس کی نسبت اور شیطان کے ساتھ اس کا تعلق ہے اس لئے جب قرآن نے ارشاد فرمایا ألا بذكر الله تطمئن القلوب   اللہ کے ذکر سے انسانی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کریم نے ایک قسم فرشتوں کی ایسی پیدا کر دی جنہیں اور کوئی کام نہیں ہے جن کی ذمہ داری ہی یہ ہے کہ جہاں کوئی ذکر کرے وہاں حاضر ہو جائیں اور کوئی کام نہیں ان کا یہی ان کی حیات ہے یہی ان کا آرام ہے یہی ان کی غذا ہے یہی ان کا مال و مثال ہے اور یہی ان کی عبادت ہے حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کچھ لوگ ذکر کرنے لگتے ہیں تو وہ فرشتہ جو بھی جسے پہلے خبر پہنچتی ہے وہ دوسروں کو بلاتا ہوا اس طرف بھاگتا ہے کہ آؤ بھئی میں نے اپنی مراد پالی تم بھی پہنچے تو وہ جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پیچھے والا اگلےسے ذرہ سر نکال کر کھڑا ہوتا ہے کہ میں ان لوگوں کو دیکھوں بھی سی اس سے پچھلا اس سے اوپر اوپر حتی کہ ان کے سروں کی دیوار آسمانوں سے جا چھوتی ہے جب وہ ذکر ختم کرتے ہیں دعا کرتے ہیں تو بڑے خوش واپس آتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ بارالہا آج ہم نے بڑی موج کی آج بڑا لطف پایا آج خوب جی بھر کر تیرا ذکر سننا نصیب ہوا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں رب جلیل انہیں فرماتے ہیں کہ یہ جو لوگ جو بندے میرا ذکر کر رہے تھے انہوں نے مجھے میری نعمتوں کو میری جنت کو دیکھا ہے نہیں یا اللہ دیکھا تو نہیں اور اگر دیکھ پائیں توعرض کریں گے پھر تو دیوانے ہی ہو جائیں فرمایا کیا انہوںنے جنم کو دیکھا ہے وہاں گئے ہیں فرشتے عرض کرتے ہیں کہ بارالہا آپ نے تو سب بخش دئے لیکن فلاں فلاں فلاں جو لوگ تھے وہ ذکر کے لئے وہاں نہیں بیٹھے تھے وہ کسی کام سے وہاں آئے تھے جو ذکر کر رہے تھے ان سے انہیں کوئی کام تھا اسی غرض سے انہیں وہاں رکنا پڑ گیا تو وہاں بیٹھ گئے وہ ذکر کے لئے نہیں بیٹھے اللہ فرماتے ہیں جب میں نے قید نہیں لگائی میں نے کہہ دیا جو وہاں تھا میں نےبخش دیا تو تم کیوں لگاتے ہو کسی بھی غرض سے بیٹھے تھے بیٹھے تو میرے ذکر میں تھے میں نے بخش دئیے ۔
میں ایک دفعہ التعرف فی مقامات تصوف دیکھ رہا تھا تو اس میں انہوں نے اہل اللہ کے عجیب عجیب حالات نقل فرمائے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون کا انتقال ہو گیا اور کوئی شخص کفن چرایا کرتا تھا تو جیسا اب رواج ہےہر دور میں انسانوں کا مزاج تو رہا ہے کہ کبھی کسی غریب کا کفن جو ہے وہ ستا ،کسی تگڑے آدمی کا قیمتی ہوتا ہے تو خواتین کو بھی اس زمانے میں رواج تھا کہ سلکی اور ریشمی اس طرح کے کفن وہ پتا دیتے تھے تو وہ بڑے اہتمام سے پہلی صف میں جنازہ پڑھا کرتا تھا کہ دیکھیں کسی قابل ہے تو قبر کھودیں کھدر میں لپیٹ کر پھینک رہے ہیں یا گڑھے میں میں خواہ مخواہ ساری رات مٹی ہی نہ ہٹاتارہوں تو وہ چونکہ ایک بہت عقیدت مندوں کا حلقہ رکھتی تھیں تو ان کا کفن بھی لوگوں نے عقیدت سے قیمتی بنایا اس نے کہا کہ خیر ہے گزارا کرے گا تو رات کو رہ گیا تو اس نے ایک طرف سے سوراخ کیا قبر تک کھودا اور جوں ہی اندر داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اندر تو ایک وسیع باغ نظر آتا ہے اللہ نے برزخ کو منکشف کر دیا اس مخص پر وہ قادر ہے نا جب وہ اسباب پیدا کرنا چاہتا ہے اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا باغ ہے اور اس کے درمیان میں ایک جگہ بنی ہوئی ہے ایک بہت عالیشان جگہ سائبان وغیرہ اور کوئی خاتون اس میں بیٹھی ہے پیچھے بہت اچھے مکانات عالیشان محلات قسم کے ہیں اور ایسے پتہ چلتا ہے کہ کوئی شاہی اقامت گاہ ہو اور اس کے صحن میں بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ بنائی ہے وہاں ایک خاتون بیٹھی ہے اب وہ بھی عام آدمی تو نہیں تھا روز قبرس کھولنے والا کفن چور تھا وہ ڈرنے والا تو کم ہی تھا وہ بھی آگے بڑھتا گیا تو جب قریب گیا تو اس نے دیکھا کہ یہ تو وہی خاتون ہے جس کا جنازہ تھا تو اس نے جب اس کی طرف دیکھا تو مسکرائی اور فرمایا عجیب بات ہے اللہ نے تو مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جتنے لوگوں نے تیرا جنازہ پڑھا ہے میں نے سب کو بخش دیا دیکھیں جنازہ پڑھا جاتا ہے میت کو بخشوانے کے لئے اور وہ فرما رہی ہیں کہ میں جب اللہ کے حضور حاضر ہوئی تو میرے رب نے مجھے یہ فرمایا کہ جتنے بندے تیرے جنازے میں تھے میں نے وہ بھی بخش دئے اور تجھے میں نے خود دیکھا تو میرے جنازے میں تھا اب تو کفن چراتا پھرتا ہے کیسی بخشش ہے یہ میری سمجھ میں نہیں آتی بات تو اس نے وہی بات کی جو وہ فرشتے عرض کرتے ہیں نا وہاں ہی لکھتے ہیں کہ اس نے ہی کہا کہ بی بی جو جنازہ پڑھنے گئے تھے رب نے انہیں بخشا ہو گا میں تو جنازے میں بھی کفن دیکھنے کی اور چوری کرنے کی نیت سے کھڑا تھا جنازہ پڑھنے کے لئے نہیں انہوں نے فرمایا اللہ نے یہ قید نہیں لگائی کون کسی نیت سے کھڑا ہے اسے بخش دوں گا مجھے تو سادہ سا جملہ میرے رب نے فرمایا تھا کہ جتنے لوگ تیرے جنازے میں تھے میں نے بخش دئے اور تو ان میں تھااس میں کوئی نیت کی ارادے کی کوئی قید نہیں تھی اور یہی واقعہ اس کی توبہ اور قرب الہی کا سبب بن گیا وہاں سے بٹا تو تائب ہو کر اہل اللہ کی مجالس میں چلا گیا اور اولیاء اللہ کی معروف ہستیوں میں ان کا نام آتا ہے اور بیشتر شجروں میں ان کا نام نامی آتا ہے۔
تو یہ برزخ کا منکشف ہو جانا ان خاتون سے ہم کلام ہونا بزرخ کی کیفیات کو دیکھ لینا میرے خیال میں یہ اسی انعام کے اسباب اللہ بنا رہا تھا تو جب بخش ہی دیا ہے تو اس کے ہدایت کے اسباب بتا رہے تھے تو اللہ کریم کرتوکرسب کچھ خود  سکتے ہیں لیکن یہ دنیا عالم اسباب ہے جب قلوب کو اطمینان نصیب ہوتا ہے یا اطمینان بخشا چاہتے ہیں تو ان میں وہ نسبت پیدا کرتے ہیں کہ ان سے فرشتوں کو انس ہو جاتا ہے اور ملائیکہ جو ہیں ان کا نزول ہوتا ہے ان پر فرمایا دو کام ہوئے فرشتوں کے نزول سے ایک تو تمہیں خوشخبری نصیب ہو گئی فتح کی بشارت ہو گئی اور دوسرا وَلِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ تاکہ تمہارے دلوں کو فرشتوں کے قرب سے اطمینان نصیب ہو اور اسی لئے ذکر الہی بھی باعث اطمینان قلب ہے کہ اس پر بھی ملائیکہ کا نزول مشروط ہے ملزوم ہے جیسے ذکر شروع کرد ویسے فرشتے آنا شروع ہو جاتے ہیں بلکہ بعض حضرات نے نشانیاں لکھی ہیں کہ پتہ چل جاتا ہے جسم بھاری ہو جاتا ہے بوجھل ہو جاتا ہے آباسیاں آنے لگتی ہیں بلا وجہ آنکھوں سے پانی آنے لگتا ہے اس طرح علماء نے صوفیوں نے اس طرح کی نشانیاں لکھی ہیں ان کی فی الوقت ضرورت نہیں ہے۔
لیکن یہ بات قطعی ہے میں آج بھی دیکھ رہا تھا آداب النفس ” تو اس میں فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ ہر انسان خوش ہوتا ہے اور پوری انسانیت دو طبقوں میں تقسیم ہے ایک خوشی ہوتی ہے جس پر نفس خوش ہوتا ہے وہ خوشی بھی انہی باتوں پر ہوتی ہے مثلا مال پر اولاد پر گھر پر دولت پر فتح پر اقتدار پر یہ خوشی ہوتی ہے لیکن اگر اسی پر نفس کو خوشی نصیب ہو تو اس کا رابطہ شیطان سے ہوتا ہےوہ مال  برائی پہ خرچ کرتا ہے اولاد سے ناجائز توقعات رکھتا ہے اقتدار اگر ہو تو ظلم کرتا ہےیعنی وہ اللہ سے دور ہو جاتا ہےدوسری فرحت قلب کی ہے اولاد پر مال پر اقتدار پر اگر قلب میں فرحت آتی ہے نفس خوش نہیں ہوتا ہے توقلب کا تعلق جو ہے وہ اللہ سے ملاء الاعلیٰ سے اور ملائیکہ سے ہوتا ہے تو پھر اولاد پر خوشی یہ ہوگی کہ جو کام میں اللہ کے دین کا کر رہا ہوں اللہ نے مجھے بچے دیے ہیں انشاء اللہ یہ بھی اس کی خدمت کریں گے یا جہاد میں میرے بیٹے کام آئیں گے یا برائی کا مداوا کرنے کے پھر وہ خوشی کی صورت بدل جاتی ہے پہلی صورت ہو نفس کی خوشی ہو تو سوچ یہ ہوتی ہے کہ پانچ بچے ہیں یہ اتنا پیسا کما کرلائیں گے کہ کسی نے میرے ساتھ بات کی یہ اس کی گردن توڑ دیں گے یا گاؤں میں رعب ہو گا یہ ہوتی ہے نفس کی خوشی اور وہ فرماتے ہیں اگر دل خوش ہو تو دل کی خوشی یہ ہوتی ہے کہ بھئی میں ایک سجدہ کرتا تھا اب ہم گھر کے چھ سجدے کرنے والے ہو گئے ہیں میں اکیلا دعا کرتا تھا اب ہے ہم چھ کیا کریں گے میں اکیلا تبلیغ کرتا تھا اب ہم چھ ہو گئے ہیں بحمد اللہ یہ بچے بھی کام آئیں گے یا مال ہو تو کہتا الحمد اللہ اللہ کے دین کی اشاعت میں کام آتا ہے. اقتدار ہو تو کہتا ہے اب میں برائی کو روکنے کی پوزیشن میں ہوں تو اگر یہ سوچ ہو تو اس کا مطلب ہے دل خوش ہوتا ہے اور دل خوش ہو تو ملا ئکہ سے ربط ہوتا ہے اور نفیس خوش ہو تو شیطان سے رابطہ ہوتا ہے تو اطمینان قلب جو ہے اس کا عالم اسباب میں بظاہر سبب جو ہے یہ ہے کہ اس کے ساتھ ملا ئکہ کو ربط نصیب ہو جاتا ہے ورنہ فرمایا سیدھی سی   بات ہے  وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ  مدد ہے کیا وہ تو اللہ کی طرف سے ہے ،چاہے تو بغیر فرشتوں کے کرے، چاہے فرشتوں سے کرے، چاہے تو حالات پیدا کرے نہ کرے تو اسے کوئی احتیاج نہیں ہے حقیقا تو مدد اسی کی ہے لیکن بات یہ ہے کہ دنیا عالم اسباب ہے اور قدرت کاملہ بھی اپنے اس قانون کی خلاف ورزی پسند نہیں فرماتی اور اسباب کو پیدا فرما دیا جاتا ہے ان الله عزیز حکیم کی بات ہے اللہ غالب ہے لیکن وہ حکمت والا ہے یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ عالم اسباب میں وہ اسباب پیدا فرما دیتا ہے فرمایا دوسری بات دیکھو إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ جب تمہیں زبردستی کی اونگھ نے آلیا۔
جذب کی ایک کیفیت ہوتی ہے جو آدمی جب متوجہ الی اللہ ہو تو اس پر اس قوت سے غلبہ پا لیتی ہے کہ اسے باقی سب کچھ جو ہے وہ بھول جاتا ہے صرف وہی ایک بات سامنے جسے آپ انگریزی میں CONCENTRATION) کنسٹریشن کہتے ہیں یعنی ایک جگہ پر پوری طرح سے ساری توجہ اس طرف ہو جاتی ہے اور باقی ساری دنیا جو ہے ذہن سے نکل جاتی ہے پھر آدمی کو احساس نہیں ہوتا وقت کا جگہ کا کسی بات کا لیکن ایک ہی طرف اس کی توجہ رہ جاتی ہے۔ اس طرح کی صورت فرمایا یہ بھی اللہ کا انعام ہے کہ سارے جہان  سےکاٹ کر صرف اپنی طرف لگا لے تو فرشتوں کے نزول کے باوجود فرمایا میں نے اس کے باوجود کتنے انعامکئے میں نے فرشتے نازل کئے تمہاری بات قبول کی ہزار ہی فرشتہ نازل کیا دوسری جگہ آتا ہے تین ہزار ایک جگہ آتا ہے پانچ ہزار تو فرشتوں کے نزول کے علاوہ میں نے تمہیں پوری طرح ساری کائنات سے کاٹ کر اپنی طرف متوجہ کر لیا جیسے عام فہم بات سمجھنے کے لئے ہم یہ کہیں کہ کسی کو گود میں یا کسی کو اپنے بازؤں کے حلقے میں لے لیا یا پوری طرح سینے میں جذب کر لیا یا جس طرح ہم بچے کو اٹھا کر گود میں چھپا لیتے ہیں اسی طرح ہوتی ہے یہ خشیت إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ جب تمہیں ایک گونہ بے خودی نے ڈھانپ لیا تھا بالکل الگ کر دیا تھا ساری کائنات سے اسی لئے کہ تمہیں قرار ملے تمہیں سکون ملے یہ چمکتے ہوئے بھالے یہ لپکتی ہوئی تلواریں یہ کافروں کا شور و غوغا یہ ان کے نعرے یہ اڑتی ہوئی گرد یہ سب کچھ میں نے تمہاری نگاہوں سے چھپا کر تمہارے لئے صرف اپنے جمال جہاں آرا کے دروازے کھول دئے کیونکہ اسباب سے متاثر تو انسان ہوتا ہے تو وہ تاثر جو اسباب سے وجود انسانی پر پیدا ہوتا ہے دیکھو میں نے تمہیں اس سے بھی محفوظ رکھا اور تمہاری نگاہ کو اپنے جمال پر اس طرح سے مرکوز کر دیا کہ اس کے علاوہ تمہیں کچھ نظری نہیں آتا اور اسے تشبیہ دی نعاس یعنی اونگھ سے نیند کی ہلکی سی شکل سے۔
یہ جذب کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں ادمی کے اعضاء و جوارح سو جاتے ہیں لیکن وہ جاگ رہا ہوتا ہے بظاہر بے ہوش نظر آتا ہے لیکن وہ ہوش میں ہوتا ہے آواز بھی سن رہا ہوتا ہے۔
اور  وينزل عليكم من السماء ماء ليطهركم به پانی وہاں کم تھا زیادہ نہیں تھا کچھ لوگوں کو غسل کی ضرورت پیش آگئی باقی سب نے وضو بھی کرنا تھا تہجد پڑھنے تھے فجر پڑھنی تھی پانی پینے کو پورا نہیں ہو رہا تھا فرمایا میں نے آسمان سے پانی نازل کر دیا تمہارے لئے صرف تمہاری خاطر میں نے بارش برسا دی اور عجیب بات ہے ۔
کفار نے وہ خطہ زمین مشرکین مکہ نے اپنے کیمپ کے لئے منتخب کیا جو ایک بلندی کم پر تھا ایک طرف سے اور وہاں سرخ مٹی تھی وہی ڈھلان جب نیچے میدان میں آتی ہے جہاں میدان بنتا ہے جہاں بدر کا معرکہ ہوا تو وہ جگہ ریتلی ہے وہاں آدمی گھٹنے گھٹنے بھی دھنس جاتا ہے ریت میں۔ تو مشرکین نے اس جگہ قبضہ کر رکھا تھا اور مسلمانوں کا کیمپ یہاں تھا یہاں ریت میں پاؤں دھنس دھنس جاتے تھے لڑائی میں تو تیز حرکت کی ضرورت ہوتی ہے جب سپاہی حرکت ہی نہ کر سکیں تو اس بارش نے اس ریت کو ایسے جما دیا جیسے ہوائی جہاز کا رن دے بنا ہوتا ہے اور وہ جگہ جو انہوں نے اچھی چنی تھی اسے اس بارش نے دلدل میں تبدیل کر دیا چونکہ سرخ مٹی تھی وہ سارا کیچڑ بن گئی وہاں سے آدمی پھسلتا وہاں تک چلا جاتا یعنی اسباب کو فرمایا میں نے تمہاری خدمت پر لگا دیا یعنی جنہیں پینے کے لئے ضرورت ہے ان کے پینے کے کام آئے جسے غسل کی ضرورت ہے اسے غسل کے لئے پانی ملے جسے وضو کرنا ہے اسے وضو کے لئے لے میدان میں تمہاری ریت کو جما دے اور تمہارے مخالفین کے قدموں میں کیچڑ بھی بنا دے دیکھو میں نے صرف تمہارے لئے
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاء مَاء لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ اور یہ شیطان کا تاثر جو ہے وہ خواہ مشرکین مکہ کی شکل و صورت میں ہو جنگ کی ہولناکی کی صورت میں ہو یا غسل کے وجوب کی صورت میں ہو اسی طرح کا جو تاثر شیطان کا ہے وہ بھی تم سے دور کر دے وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ اور یہ سارے اسباب میں نے اس لئے بنائے کہ تمہارے قلوب کو رابطہ نصیب ہو ۔
اگلے روز کوئی ساتھی پوچھ رہے تھے یہ رابطے کی بات تو وہی بات آگئی رابطے سے مراد وہ توجہ ہے جو دل کو اللہ کے ساتھ ایسی نصیب ہو کہ اسے عظمت الہی یہ اعتماد ہو جائے اللہ کی حضوری استحضار جسے کہتے ہیں نصیب ہو جائے اسے یہ پتہ ہو کہ میرا پالنے والا میری فریاد سننے والا میرا مالک اور میرے مالک کا میرے ساتھ قریبی تعلق یہ سب رابطہ ہے اصطلاح تصوف میں رابطہ کہتے ہیں کہ جب آپ سارے طائف کر کے پہلے لطیفے پر آتے ہیں تو جب آپ مراقبہ کرتے ہیں تو قلب سے جو اللہ اٹھتی ہے اس کی ھو جو ہے وہ جب عرش عظیم تک کو چھولے اور دل سے اٹھنے والے انوارات عرش عظیم کو چھو رہے ہوں اسےاصطلاح میں رابطہ کہتے ہیں وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ تاکہ تمہارے دلوں کو وہ رابطہ نصیب ہو وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ  اور ان سب چیزوں سے تمہیں تمہارے قدم جو ہیں وہ تم جائیں ثابت رہیں فرمایا دیکھو اللہ نےان فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا۔
إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ  یاد کرو وہ وقت جب آپ پروردگار نے جب فرشتوں کو یہ حکم دیا اني معكم دیکھو یہ میری طرف سے پوری تائید پوری طرح سے میری مدد تمہارے ساتھ ہے فتوا الذين امنوا دیکھو کافروں کو مرنا ہی مرنا ہے تم مومنین دیکھو یہاں پہلے اسی رابطہ قلبی کو قدم کے اقدام کے ثبوت کا سبب قرار دیا وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْوَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ   اور فرمایا میں نے فرشتوں سے بھی کہا تھا کہ تم پوری توجہ دو مومنین کے قلوب کو تاکہ ان کے قلوب میں اور ان کے قدموں میں اثبات پیدا ہو وہ جم جائیں میرے دروازے پر سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ  کافروں کی فکر نہ کرو میں ان کے دل میں ویسے ہی ہیبت ڈال دونگا یعنی فرشتوں سے میں نے کہا تھا کہ تم ادھر توجہ کرنا چھوڑ دو کافروں کی طرف انہیں میرے سپرد کرو تمہیں جو ہمت جو استطاعت ہے جو تعلق تمہارا عالم بالا سے ہے جو انوار تمہارے دامن میں ہیں وہ میرے بندوں کے قلوب میں انڈیل دو تم یہ کام کرو اور کافروں اور مشرکین کی طرف میں تمہارا رعب ہی اتنا اپنے بندوں کا اہل بدر کا مومنین کا ڈال دوں گا۔
سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ دیکھو کام بانٹ دیا فرمایا ادھر میں ان کے دلوں میں رعب ڈالتا ہوں ادھر تمہیں جو برکات جو انوارات جو تجلیات نصیب ہورہی ہیں انہیں پوری قوت سے مومنین کے قلوب میں انڈیل دو ادو یہی شیخ کی توجہ ہوتی ہے یہی کام ہوتا ہے شیخ کا کہ اس کے اپنے قلب میں حرارت ہو نور ہو قوت ہو اور وہ قوت طالب کے سینے میں اتار دیے اور اس کا نتیجہ یہ ہو کہ اس طالب کو نیکی پر ثابت قدم رہنے کی توفیق مل جائےفَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُواایمان والوں کو ثابت قدمی نصیب ہو۔
توجہ کا الٹی میٹ ریزلٹ یا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر نیکی پر جم جانے کی قوت نصیب ہوتی ہے آدمی تذبذب میں نہیں رہتا کہ کبھی ادھر بھاگے کبھی ادھر بھاگے ایک جگہ جم کر کھڑا ہونے کا حوصلہ نصیب ہوتا ہے اب رہے کافر تو فرمایا ان کا کام میں کرتا ہوں  سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ کافروں کے دلوں کو تو میں ہیبت سے بھر دوں گا ان پر ویسے ہی لرزہ طاری ہو جائے گا اور جب تم ادھر سے فارغ ہو  وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ان کو بھی ایسی ضرب لگاؤ کہ ایک ایک جوڑ سے ٹیسیں اٹھیں یعنی کوئی کافر خالی نہ جائے گردنیں اڑا دو اور ایسی ضرب لگاؤ کل بنان ایک ایک پور ایک ایک جوڑ ایک ایک جائنٹ جو ہے ہر ہر جائنٹ سے علیحدہ نہیں انھیں ایسا مارو ان ظالموں کو کیوں ؟ اس لئے کہ یہ اللہ اہل مکہ جب مکہ سے نکلنے لگے تو بیت اللہ پردے تھام کر انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ ہمیںسے یہ مصیبت لے ہم اب میدان میں چلے میں دونوں فریقوں میں جو زیادہ حق پر ہے اس کو فتح دے اور اگرنۡ كَانَ هٰذَا هُوَ الۡحَـقَّ  اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہتے ہیں یہ حق ہے اَمۡطِرۡ عَلَيۡنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍ تو پھر اس کو قبول نہیں کرتے ہم پر جو عذاب نازل کر سکتا ہے کر دے پتھر برسا یا اور کوئی عذاب نازل کر پھر جو کرتا ہے ہمارے ساتھ کر یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے۔
اللہ کریم فرماتے ہیں وہ میرے ساتھ اعلان جنگ کر کے نکلے ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُاس لئے الله سے تو دعائیں کر رہے تھے اللہ فرماتے ہیں میرے ساتھ اعلان جنگ کر رہے تھے اس لئے کہ ان کا اعلان جنگ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ  اللہ کے ساتھ اعلان جنگ یہ ہے کہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے اب مخالفت کی نوعیتیں میں ایک مخالفت ہے کہ اہل مکہ تلوار سونت کر میدان میں نکلے کہ ہم اس آواز ہی کو معاذ اللہ ختم کر دیں گے گردن اڑا دیں گے قتل کر دیںگے ایک مخالفت ہے کہ لڑتا ہی نہیں ہے لیکن کہتا ہے کہ میں آپ کی بات نہیں مانتا ایک مخالفت ہے وہ کہتا ہے میں آپ کی بات سنتا ہی نہیں ایک مخالفت کا درجہ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے آپ کی بات سن لی ہے مانتا نہیں ہوں ایک درجہ یہ بھی ہے کہتا ہے من بھی لی مان بھی لی عمل نہیں کروں گا ایک درجہ اور بھی ہے کہتا ہے سنتا بھی ہوںمانتا بھی ہوں لیکن عمل کرنے سے ناک کٹ جائے گی بے عزت ہو گی۔یہ سارے درجے آپ کو اپنے اردگرد اپنی سوسائٹی میں بعض دفعہ اپنے کردار میں بھی نظر آئیں گے ہم خود ایسا کر گزرتے ہیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ سنت کے مطابق اس کام کو اس طرح کرنا چاہئے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے بے عزتی ہو گی گویا معاذ اللہ عقیدہ یہ ہو گیا کہ سنت کے مطابق جو کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ عزت مندوں کا کام نہیں یہی ہوا نا ۔ تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا رہتا ہے لیکن وہ رہتا نہیں بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ہوئے ہوتا ہے لیکن اس کا اسلام رخصت ہو چکا ہوتا ہے اور ایسی حالت میں اس پر مصائب شدائد و رزائل اور من جانب اللہ جو مصیبتیں آتی ہیں وہ کہتا ہے عجیب بات ہے ہم مسلمان بھی ہیں مصیبتیں بھی ہمارے ہی لئے ہیں وہ یہ نہیں دیکھ رہا ہوتا کہ ہم مسلمان کہاں تک ہیں۔
تو فرمایا وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ  جو بھی اللہ کے خلاف جنگ کرے گا یعنی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جتنی مخالفت کرے گا اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے فَفَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ کہ اللہ کے عذاب بھی بڑے سخت ہیں یعنی مخالفت کرتے وقت یہ بھول نہیں جانا چاہئے کہ کسی سے ٹکر لے رہا ہوں اور اس کی گرفت کتنی سخت ہے فرمایا صرف یہ نہیں یہ بدر کی شکست یا فرشتوں کی مار یا جوڑ جوڑ  ٹیسوں کا اٹھنا، دنیا میں ذلت رسوائی اور شان و شوکت کا تباہ ہو جانا، مال و دولت کا چلا جانا یہ سارے نہیں ذَٰلِكُمْ فَذُوقُوهُ یہ تو تھوڑا سا تمہیں ٹیسٹ کے لئے دیا ہے یہ تو چکھنے کے لئے ہے یہ تو ایسے ہے جیسے کوئی کھانا تیا ر کر کے ایک چمچ دے دیتا ہے کہ لو بھئی یہ چکھو۔وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ مزا تب آئے گا جب کافر جنم میں داخل ہوں گے عذاب کی شدت کا اندازہ تو تب ہو گا کہ جب وہ اپنے اس آخری ٹھکانے پر پہنچیں گے یہ تو معمولی سی ایک جھلک ہے عذاب کی جو بدر میں مشرکین کو پیش آئی۔
آج کے سبق میں بحمد اللہ ہمارے اس موضوع سے متعلق باتیں بہت ہی آئیں سب سے پہلے تو استغاثہ اور دعا کہ دعا بہت ضروری ہے ۔بہت بڑی قوت ہے بہت بڑا ہتھیار ہے لیکن اپنے سارے آداب کے اور اوقات کے ساتھ۔ اللہ کریم جب چاہتے ہیں تو اسباب ویسے نتائج دیتا شروع کر دیتے ہیں جو آدمی کے حق میں جائیں وہ چاہے تو آگ کو گلزار بنا دیتا ہے جو موت کا سبب ہے وہ آرام کا سبب بن جاتی ہے اور جب وہ چاہے تو پانی یا ہوا کو جو زندگی کا سبب ہے اس کے ذریعے فرق کر دیتا ہے تباہ کردیتا ہے۔اور فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ان قلوب پر جو اللہ کے نام پر دھڑکتے ہیں اللہ کے لئے خوش ہوتے ہیں اور جنہیں یہ راحت اللہ کے دین کے احیاء کے سلسلے میں نصیب ہوتی ہے اور اللہ کی طرف سے ایسی توجہ نصیب ہو جاتی ہے کہ آدمی ساری پریشانیاں بھول کر مزے سے زندگی گزارتا ہے اس دنیا میں بھی رہتا ہوا جنت میں رہتا ہے اسے کوئی پرابلم نہیں ہوتا بظاہر اس پر کوئی مصیبت بھی آئے تو باطن اس کی جمیعت خاطر کو پریشان نہیں کرتی دل مطمئن رہتا ہے اور وہ اندر سے ٹوٹا پھوٹتا نہیں ہیں اس کی توجہ قلبی جو ہے وہ اللہ کی طرف رہتی ہے اور اسی کو رابطہ کہتے ہیں جب تک یہ نہ ہو بات نہیں بنتی اور مخالفت نبوت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہے انکار کی صورت میں ہو ،یا سننے کے بعد عمل نہ کرنے کی صورت میں ہو یا سننے اور ماننے کے بعد عمل نہ ہو یعنی جتنی بھی کوئی کرے گا جتنی مرچیں ڈالیں گے اتنی تلخی ہو گی
تو فرمایا جتنا بھی جو بھی اللہ اور اللہ کے رسول کے خلاف چلتا ہے اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ کے عذاب بڑے سخت ہیں دنیا میں جو شدائد آتے ہیں یہ تو تھوڑا سا ٹیسٹ ہے کافر کو عذاب کا پتہ تو تب چلے گا جب وہ جہنم میں پہنچے لیکن ایک بات یاد رہے اطاعت پہ ثبات جو ہے وہ رابطہ قلبی سے نصیب ہوتا ہے اگر قلب کو یہ رابطہ نصیب نہ ہو تو آدمی یہ وعظ کی کرسی بھی شہرت کے لئے استعمال کرتا ہے نمازیں بھی پیسوں کے لئے ،رزق کے لئے، روزی کے لئے پڑھتا ہے تبلیغ بھی دنیوی فائدے کے لئے کرتا ہے حتی کہ عبادات اور دین جو ہے وہ بھی دنیا کے لئے ہو جاتا ہے اور اگر رابطہ نصیب ہو تو دنیا کا کام بھی اللہ کی رضا کے لئے کرتا ہے یعنی امور دنیا بھی عبادت بن جاتے ہیں اتنا بڑا فرق ہے اس میں اللہ کریم ہمیں یہ نعمت نصیب فرمائیں ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائیں۔
( دار العرفان : ۳ مئی ۱۹۸۹ )
یہ تحریر ماہنامہ المرشد سے لی گئی ہے اگر آپ اس تحریر کو پی ڈی ایف میں ڈون لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں
لنک پی ڈی ایف
Facebook Comments Box

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے