حضرت خواجہ محمد بابا سماسی رحمتہ اللہ علیہ م-۵۷۵۵/ ۱۳۵۴ء
بابا کا لفظ ترکی زبان میں بزرگ اور ولی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ محمد بابا سماسیؒ ہفت خواجگان نقشبند میں نہایت بلند مرتبہ کے مالک ہیں۔ جب حضرت خواجہ علی رامیتنیؒ کا اخیر وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے اصحاب میں سے حضرت محمد باباؒ کو اپنا نائب مقرر کر کے تمام اصحاب کو ان کی متابعت اور خدمت کا حکم دیا اور حضرت محمد بابا کو تاکید کی کہ میرے متعلقین کی تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔
بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں یہ تغلق سلاطین کا زمانہ تھا اور اس ملک کےعظیم شیخ حضرت نصیر الدین چراغ دہلی (م ۱۳۵۶ء) آپ کے ہم عصر تھے۔
جائے پیدائش
حضرت محمد بابا کی جائے پیدائش سماسی نامی گاؤں میں ہوئی ۔جو صاحب رشحات کی روایت کے مطابق سماسی رامتین کے دیہات میں سے ہے اور رامتین سے ایک فرسنگ کے فاصلے پر واقع ہے۔ تاہم حضرت شاہ ولی اللہ کے خیال میں سماسی مضافات طوس یعنی مشہد میں سے ہے۔ حضرت محمد بابا کے جو مختصر حالات ہم تک پہنچے ہیں، وہ تمام تر بخارا اور اور اس کے نواح قصر عارفاں کے گرد گھومتے ہیں۔ اس لئے صاحب رشحات کی روایت زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ موضع سماسی رامتین کے نواح میں تھا۔
محویت و استغراق
آپ کی طبیعت پر محویت و حال کا غلبہ رہتا تھا اور دنیوی کاموں کے دوران بھی یاد الٰہی میں استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی ۔اپنے گاؤں میں آپ کا ایک باغ تھا جس میں انگوروں کی بیلیں تھیں کبھی کبھی آپ وہاں جا کر ان پودوں کی شاخیں کود کاٹا کرتے تھے لیکن بے خودی کا یہ عالم تھا کہ کام کے دوران غیبت آ جاتی تھی اور قینچی آپ کے ہاتھ سے گر جاتی تھی یا محویت کے عالم میں شاخ اندزہ سے زیادہ کٹ جاتی تھی۔
خواجہ نقشبندیہ کے بارے پیش گوئی
حضرت محمد بابا سماسیؒ جب بھی بخارا کے نواح میں کو شک ہندوواں کے پاس سے گزرتے تو فرماتے : "ازمیں خاک ہوئے مردے می آید۔ زود باشد که کو شک ہندوواں قصر عارفاں شود “ (اس زمین سے ایک مرد کی خوشبو آتی ہے۔ قریب ہے کہ کو شک ہندوواں قصر عارفاں بن جائے) ایک مرتبہ جب آپ پھر اس جگہ تشریف لے گئے تو فرمایا کہ اب خوشبو تیز ہو گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ مرد پیدا ہو گیا ہے۔ اس وقت حضرت خواجہ نقشبند کو پیدا ہوئے صرف تین دن گزرے تھے۔
حضرت خواجہ نقشبندؒکے جد امجد بچے کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے بچے کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ ہمارا فرزند ہے اور ہم نے اسے اپنی فرزندی میں قبول کیا۔ پھر اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ یہی وہ مرد ہے جس کی خوشبو ہمیں آیا کرتی تھی اور یہ اپنے وقت کا ہادی ہو گا۔ اس کے بعد اپنے خلیفہ حضرت سید امیر کلالؒ سے فرمایا کہ میرے اس فرزند کی تربیت میں کوئی کو تا ہی نہ کرنا ورنہ میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ انہوں نے مؤدبانہ جواب دیا کہ اگر میں کو تاہی کروں تو مردنہیں ہوں۔ ان
دعا کی تلقین
حضرت خواجہ نقشبندؒ فرماتے ہیں کہ جب میری عمر کم و بیش اٹھارہ دعا کی تلقین برس ہوئی تو میرے جد امجد کو میرے نکاح کی فکر ہوئی۔ انہوں نے مجھے حضرت محمد بابا کی خدمت میں بھیجا تا کہ میں آپ کو قصر عارفاں لے آؤں اور آپ کی بابرکت موجودگی میں یہ کام انجام پائے۔ آپ کے پاس حاضری پر مجھے پہلی کرامت یہ نظر آئی کہ اس رات مجھ پر بڑا خشوع و نیاز طاری ہوا اور میں نے رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر وضو کیا، آپ کی مسجد میں دور کعت نفل ادا کیے۔ طبیعت میں بڑی تضرع آگئی تھی اور میرے منہ سے یہ دعا نکلی :
” خدایا مجھے مصیبت کا بوجھ اٹھانے اور محبت کی محنت برداشت کرنے کی قوت عطا فرما”۔
صبح کو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بصیرت باطنی سے میری رات کی سرگذشت سے آگاہ ہو کر فرمایا :
"اے فرزند ! دعا میں یوں کہنا چاہیے : ‘خدایا اس بند و ضعیف کو اپنے فضل و کرم سے اس پر قائم رکھ جس میں تیری رضا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی رضا تو اس میں ہے کہ بندہ مصیبت میں مبتلانہ ہو۔ اگر وہ حکمت کی بنا پر کسی دوست پر مصیبت بھیجتا ہے تو اپنی عنائت سے اس دوست کو اس بلا کے برداشت کرنے کی قوت عطا فرماتا ہے اور اس کی حکمت اس پر ظاہر کر دیتا ہے۔ اپنے اختیار سے مصیبت طلب کرنا مناسب نہیں۔ یہ گستاخی نہیں کرنی چاہیے۔”
کرامت
اسی دن جب کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے دستر خوان سے ایک روٹی اٹھا کر مجھے دی۔ میں لینا نہیں چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ لے لو کام آئے گی۔ میں نے وہ روٹی رکھ لی اور آپ کے ہمراہ قصر عارفاں کو روانہ ہوا۔ راستے میں میرے دل میں کوئی شک یا فتور پیدا ہو تا تو آپ فرماتے کہ باطن کی حفاظت کرو۔ آپ کے اس تصرف باطنی کو دیکھ کر میرا یقین اور پختہ ہو گیا۔ راستے میں آپ نے اپنے ایک مخلص کے ہاں قیام کیا۔ وہ آپ کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا مگر اس میں کچھ اضطراب کی کیفیت بھی پیدا ہوئی۔ حضرت نے اسے فرمایا کہ سچ بتا تجھے کس بات کی پریشانی ہے۔ اس نے عرض کیا کہ گھر میں دودھ تو ہے مگر روٹی نہیں۔ کوشش کے باوجود دستیاب نہیں ہوئی۔ آپ نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ روٹی لاؤ۔ تم نے دیکھا آخر وہ روٹی کام آگئی۔
وفات حضرت محمد بابا کا وصال ۱۰ جمادی الثانی ۷۵۵ ھ مطابق ۱۳۵۴ء کو ہوا۔ ا مزار مبارک موضع سماسی میں ہے۔

ماخذ كتب
انیس الطالبین
‏ خواجہ محمد پارسا
واعظ کاشفی
رشحات

Facebook Comments Box
2 thoughts on “حضرت خواجہ محمد بابا سماسی رحمتہ اللہ علیہ”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے