اِنَّ الدِّيۡنَ عِنۡدَ اللّٰهِ الۡاِسۡلَامُ

سب سے بنیادی بات جو سب سے زیادہ توجہ کی مستحق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دین شے کیا ہے اور اس کی ضرورت کیا ہے ۔ اسلام کے مطابق انسان محض حادثاتی طور پر وجود میں نہیں آیا جبکہ اس کا ایک خالق ہے جس نے اسے اپنی تخلیق کے شاہکار کے طور پر پیش فرمایا اور اسے اپنی اس تخلیق پر بجا طور پر فخر ہے ۔ خالق کل نے انسان میں اس قدر خوبیاں اور اوصاف سمو دیے ہیں کہ جنہیں آج تک شمار نہیں کیا جا سکا اور شاید کبھی ان کا احاطہ ممکن نہ ہو انسان کے ارد گرد یہ جو وسیع کائنات پھیلی ہوئی ہے اسلامی نظریہ کے مطابق اور اسلامی عقیدے کے مطابق اسلام کے مطابق یہ ساری وسیع کائنات محض ایک انسان کی خدمت کے لیے پھیلائی گئی ہے. اس کے وجود کی بقا کے لیے اس کے ضروریات کی تکمیل کے لیےیہ سارا کارخانہ قائم فرمایا گیا ہے ۔

            لیکن انسان محض اس دنیا میں رہنے کے لئے نہیں آیا یہ سارا نظام جو ہمارے سامنے ہے جسے ہماری سائنس یا ہمارے علوم یا ہماری تحقیقات سمجھ رہی ہیں یہ ایک عارضی مدت کے لیے ہے انسان زندگی کے راستے پر ہے اس کی منزل آخرت ہے آخرت حقیقی زندگی ہے یہ قیام قیامت سے شروع ہو گی اور کبھی ختم نہ ہو گی اس منزل پر کیا سارے انسان اپنے مقصد کو پالیں گے ؟ نہیں یہاں آکر دین کی ضرورت پیش آتی ہے اس کارگاه حیات سے اسے راستے اس طریقے اس اسلوب سے گزرنا یہ وہاں پہنچ کر انسان کو اس کی منزل تک پہنچا دے اس کا نام اسلام ہے یہ دین ہے اور اس راستے سے بھٹک جاتا اور وہاں پہنچ کر یہ سمجھ آئے کہ میں تو منزل کھو چکا ہوں یہ غیر اسلامی طرز حیات کا نتیجہ ہے ۔

اب اس منزل تک پہنچنے کے لئے ضرورت انسان کی یہ ہے کہ وہ اس دنیا کو اس کی نعمتوں کو اس کے اسباب کو حاصل بھی کرے استعمال بھی کرے لیکن ان کے حصول کا طریقہ اور اس کے استعمال کا طریقہ وہ ہو جو اسے اس راستے پہ چلنے میں مدد دے یعنی دو کام ہوتے رہیں وہ روزی بھی کمائے عبادت بھی شمار ہو مزدوری کرے عبادت شمار ہو وہ کاروبار کرے تو اس کی آخرت سنورے وہ کسی سے دوستی کرے تو اس کے نتیجے میں اس کی آخرت بنے وہ کسی سے دشمنی کرے تو اس کے نتیجے میں اس کی آخرت بنے وہ سوئے یا جاگے کھائے یا وہ چھوڑ دے تو اس کا ہر فعل جو ہے اس کے دائمی اور ابدی زندگی کو بنانے میں، سنوارنے میں یا اس کو اپنی منزل تک پہنچانے میں معاون ثابت ہو اور یہ کام آسان نہ تھا چونکہ اس عالم آب و گل میں انسان کا بدن براہ راست مکلف ہے ۔

انسان جسم اور روح دونوں کا آمیزہ ہے جسم مادی ہے یہ جہان مادی ہے جسم کی ضروریات مادی ہیں اس میں نعمتیں مادی بکھری پڑی ہیں ۔ روح انسانی بہت بلند و بالاتعلق رکھتی ہے حتی کہ جہاں دار تخلیق ختم ہوجاتا ہے وہاں سے عالم امر کی ابتداء ہوتی ہے جس سے روح تعلق ہے اور اب وہ بدن کے راستے سے مکلف ہے

یہاں (روح)براہ راست نہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے اور بڑی عجیب بات ہے کہ بدن جو براہ راست مکلف ہے وہ اپنے ضروریات کو دیکھتا ہے اپنی ضروریات کو سوچتا ہے ان کو پانے کے لیے مختلف حیلے بہانے تلاش کرتا ہے وہ اس بات کی پرواہ کرنا گوارا نہیں کرتا کہ اس سے نتیجہ دائمی یا ابدی اخروی کیا ہو گا یا اس کا نتیجہ روح پر کیا مرتب ہو گا ۔ اب اس کے لیے انسانی ضرورت یہ تھی کہ اس کی روح بھی اس سے زیادہ مضبوط ہوتی جتنا اس کا بدن براہ راست مکلف تھا ۔ اگر آگ کے قریب جانے سے بدن جاتا ہے تو گناہ کے قریب جانے سے روح بھی جلتی اگر ٹھنڈی چھاؤں میں بدن راحت پاتا ہے تو نیکی کر کے روح کو بھی تسکین ملتی اگر یہ جذبہ یہ کیفیت حاصل ہو جائے پھر تو دین پر چلنا ایک فطری عمل بن جاتا ہے انسان کے لیے امور عادیہ میں سے ہو جاتا ہے اور اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو ساری زندگی پکڑ دھکڑ کی رہتی ہے کبھی گھیسٹ گھساٹ کر اپنے آپ کو مسجد تک لے گئے وجود مسجد میں ہے اور دل بازار میں ہے کبھی اپنے آپ کو کھینچ تان کر لے گئے نیکی کی طرف ،پھر کبھی کوئی حیلہ تلاش کر لیا یہ بھی جائز ہے وہ بھی جائز ہے اس طرح  زندگی اپنے آپ کے ساتھ دھوکا کرتے جھوٹ بولتے بیت جاتی ہے ۔

 رب جلیل نے اُس کا اہتمام انبیاء کو مبعوث فرماکر اپنی کتابیں بھیج کر فرما دیا اور ایمان لانا جو ہے وہ روح کو اسی قوت سے آشنا کرنا ہے کہ وہ اس دار دنیا میں اتنی طاقت ور ہو جائے کہ بدن کو اس کی ضروریات کی تعمیل کے لئے ان راستوں پر چلائے جو روح کے لئے بھی مفید ہیں اسی کو ایمان کہتے ہیں ۔ اور اگر ہمارے ایمان و یقین میں یہ قوت نہ ہو اور نرا زبانی دعوئی ہو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اور اعمال پر اس کا اثر نہ ہو تو سوائے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے باقی ائمہ کے نزدیک وہ ایمان قابل قبول نہیں ہے۔ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ دعوی کرنا بھی تو ایک عمل ہے اسے ایمان سے خارج نہ کیا جائے لیکن یہ بڑی ،بہت ہی زیادہ رعایتی اسلام نمبر دے کر اس کی گنجائش نکالی ہے انہوں نے۔

            تو اس سارے نظام کو قائم کرنے کے لیے رب جلیل نے عبادات عطا فرمائیں۔ انسان کی دن میں پانچ دفعہ بارگاہ  الوہیت میں حاضری، اس کی کتاب کی تلاوت ،اس کے نام کا ذکر ،یہ ساری چیزیں کیا ہیں؟ یہ سارے وہ ذرائع اور وہ اسباب ہیں جو انسانی روح کو وہ طاقت بخش دیں کہ وہ بدن کو لگام دے سکے اب کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ نرا گوشہ نشین ہو جاتا اسلام ہے کھانا پینا چھوڑ دینا اسلام ہے کاروبار نہ کرنا اسلام ہے بیوی بچوں گھر بار کو چھوڑ کر ملک ملک دیس دیس پھرنا یہ اسلام ہے یا بڑی نیکی ہے یا پھٹے کپڑے پہن لینا بڑی نیکی اور اسلام ہے۔

            ان میں سے کوئی چیز بھی اسلام نہیں ہے دار دنیا میں بھر پور زندگی گزارنے کا نام ،بہت مزے سے جینے کا نام لیکن وہ سارا مزا وہ سارا لطف زندگی کا ،وہ سارا توانائیوں کا جو وقت ہے اس میں انسان ان طریقوں پہ اپنے آپ کو پابند رکھے جو اللہ کریم نے مقرر فرما دیا، کمانے کے لئے بھی، خرچ کرنے کے لیے بھی ،کھانے کے لیے بھی ،چھوڑ دینے کے لیے بھی، سونے جاگنے کے لیے بھی ،دوستی اور دشمنی کے لیے بھی ،سیاست ہو اخلاقیات ہوں معاشیات ہوں ہر پہلو سے زندگی میں حصہ لینا کہیں سے راہ فرار اختیار نہ کرنا اور وہ حصہ اس طرح سے لینا جس طرح سے نہ صرف جسم کی ضروریات پوری ہوں بلکہ روح کی بھی ضرورت پوری ہو نہ صرف دنیا کا کام ہو بلکہ اس کے ساتھ آخرت بھی بنے یہ دین ہے اور اسی کا نام اسلام ہے

 اب اس میں سے ہم جتناچھوڑ دیتے ہیں مثلا ایک شخص نماز چھوڑ دیتا ہے تو اس نے ایک خوبصورت حصہ اسلام کا ضائع کر دیا جبکہ کسی کا بہترین مکان ہو اور وہ نصف حصہ چھت کا یا دیواروں کا گرا دے تو مکان تو مکان نہ رہا کھنڈر نظر آئے گا وہ جو فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے وہ بھی ،وہ ہو گا جو کسی کھنڈر سے ہوتا ہے اسی طرح سے ایک شخص نے نمازیں تو باقاعدگی سے قائم کر لیں لیکن اپنی ذمہ داری جو تھی بچوں کی رزق کمانے کی وہ چھوڑ دی یا جن کی خدمت ان کےذمے تھی ان کی خدمت چھوڑ دی یا گھر کا کام کاج چھوڑ دیا تو اس نے عبادت والا حصہ اگر بچا لیا تو دوسرا حصہ گرا دیا ہے اس کے پاس کھنڈر ہی ہے بچا اس کے پاس بھی کچھ نہیں ۔ تو اسلام کی یہ تصویر صحیح نہیں ہے ۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صحابہ کرام کو ایک انتہائی سخت اور اللہ سے انتہائی دور معاشرے سے لے کر مثالی مسلمان بنایا تھا اور وہی معیار ہے اسلام کے ایمان کے اعتبار سے اور عمل کے اعتبار سے بھی، قرآن حکیم کے مطابق بھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ۔ صحابہ کرام کی زندگی سادہ سے الفاظ میں آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کے ہر کام میں حصہ لیا ہے سیاسیات میں بھی، جنگوں میں بھی، کاروبار میں بھی، تجارت میں بھی، زراعت میں بھی، ملازمت میں بھی، مزدوری میں بھی ،دنیا کے ہر کام میں انہوں نے حصہ لیا ہے اور ہر کام میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی طرز حیات سب سے بہترین ہے سب سے اچھا ہے ۔ اوراس کے مطابق سارے کام ہو سکتے ہیں ۔

دنیا میں اگر کوئی بہت بڑا نیک انسان ہو یا بہت بڑا امام ہو یا بہت بڑا فاضل ہو یا بہت بڑا عابد و زاہد ہو بہت ہی بڑا بلند مرتبہ پالے تو یہ صحابی نہیں بن سکتا ۔ ان کا متبع ہی بن سکتا ہے کمالِ اسلام کسی کا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس رنگ میں ڈھال لے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا یہ اجتماعات یا یہ کوششیں یہ ذکر اذکار یا یہ جو بیان ہوتے ہیں ۔ ان سب کی غرض و غایت یہ ہے کہ ہم اسلام کی حقیقی صورت کو سمجھیں اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی پوری کوشش کریں ۔

            عبادات میں یہ عجیب کیفیت ہوتی ہے کہ اللہ جل شانہ سے تعلق اور رابطہ جو ہے وہ مضبوط ہوتا ہے اور اس تعلق کی ضرورت پڑتی ہے دار دنیا میں جب ہم میدان عمل میں جاتے ہیں تو کسی ڈور کٹےہوئے پتنگ کی طرح آوارہ ہو کر ہواؤں کے دوش پر نہ اڑتے پھریں بلکہ ہماری ڈور کسی مضبوط ہاتھ میں ہو جدھر وہ حرکت دے ادھر جائیں تو یہ تعلق رب جلیل سے اس ڈور کی مانند مضبوط ہو جاتا ہے جو وسیع فضاؤں میں بھی پتنگ کو آوارہ نہیں ہونے دیتا اسی طرح کاروبار جہاں میں ہم جائیں تو ہم اس آوارہ پتنگ یا ڈور کٹے ہوئے پتنگ کی طرح نہ ہوں بلکہ ہمارا رشتہ اللہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استوار ہو اور دنیا کی وسیع فضاؤں میں ہم اس طرف حرکت کریں جس طرف ان کی پسند ہے یہ تو ہے اسلام ۔

اور کسی پتنگ کے ساتھ مضبوط ڈور ہو لیکن وہ فضامیں اڑے ہی نہیں یا فضا میں اڑے تو اس کی ڈور کٹ جائے تو یہ ناکامی ہے تو اس لیے اسلام کو اس طرح نہ سمجھا جائے کہ نرا گوشہ نشینی اسلام ہے یا محض صرف تسبیحات کا پڑھنا اسلام ہے یا صرف تبلیغ کرنا اسلام ہے یا صرف ذکر اذکار کرنا اسلام ہے ہیں اسلام نام ہے عبادت کے وقت عبادت میں حاضر ہونے کا، کام کے وقت دوسرے سے زیادہ جم کر کام کرنے کا، اور ساری محنت کرنے کے بعد اپنا بھروسہ اللہ پر رکھنے کا، یعنی توقعات اس کی ذات سے وابستہ کرنے کا ،تو اسلام ایک بھر پور زندگی کا نام ہے جو ہر پہلو پر محیط ہو اور اس کے ہر پہلو سے عظمت باری کا پتہ ملتا ہو ۔

اللہ کریم ہمیں اس کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کی توفیق ارزاں فرمائے ہماری ان عاجزانہ کوششوں کو شرف قبولیت سے نوازے ۔

 

وآخر دعونا ان الحمد اللہ رب العلمین

Facebook Comments Box

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے