مکتوب حضرت مولانا اللہ یار خانؒ، موضوع، اصلاح تصوف،منازل سلوک،وساوس شیطانی

1969-11-9                                                                             الداعی الخیر ناچیز اللہ یار خان

عزیزم السلام علیکم و برکاتہگرامی نامہ مل گیا جناب نے وسوسوں کی شکایت کی ہے۔ عزیزم بار بار ایک بات نہیں لکھی جاتی خوب یاد کرلو۔ وسوسہ سے نہ نقصان ولایت ہوتا ہے نہ نقصان کمال ہے ولایت اور وسوسہ میں کوئی منافات نہیں بلکہ وسوسہ اور نبوت کو کوئی منافت نہیں۔ وسوسہ بھی ہو تا رہتا ہے اور ملائب بھی قائم رہتی ہے۔ حضرت آدم کو وسوسہ ہوا جو اللہ کے نبی تھے۔ وسوسہ صرف پریشانی قلبی ہے۔ دوسرے جس گھر دانہ نہ ہو وہاں کیڑے بھی داخل نہیں ہوتے۔ وسوسہ بھی صاحب خزانہ کو ہوتا ہے ہمیشہ چور اور ڈاکو وہاں وہاں ہی چوری اور ڈاکہ ڈالتا ہے جہاں مال ہوتا ہے جب لطائف میں انوار پیدا ہوئے انوار کا خزانہ پیدا ہوا تو ابلیس ملعون جو چور و ڈاکو ہے اس کے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے کہ میں اس مکان کی نقب زنی کر کے مال نکال لوں لطائف سے اوّل باطن میں اندھیرا تھا۔ ابلیس چور خوب آرام سے چوری کرتا تھا۔ اب اندر انوار کی روشنی پیدا ہو گئی ذکر الہی کے نور سے۔ پھر لطائف سے ذکر اللہ اللہ کی آوازیں بھی آتی ہیں۔ اب چور پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتا تو وہ ہر طرح کے حیلے سے کام لیتا چاہتا ہے۔ جس سالک نے سمجھ لیا کہ یہ میرا دشمن ہے۔ ہر طرح لوٹنا چاہتا ہے تو پھر وہ وسوسہ کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ ذکر پر ڈٹا رہتا ہے۔

 اصل بات یہ ہے کہ صوفیا عارفین کی جماعت پانچ ہجری کے آخر میں شروع ہو کر 10 ہجری کے اول تک کافی تعداد میں رہی ہر طرف ان کا زور تھا علماء امت کی جماعت حد سے زائد تھی۔ چار ہجری تک تو تبع تامین کی جماعت کے شاگرد موجود تھے۔ پھر ان کے خاتمہ پر یہ جماعت اولیاء کی رب العالمین نے پیدا کی۔ کثرت سے عالم برزخ میں جن کاملین سے ملاقات ہوتی ہے اکثر پانچ ہجری سے 10 ہجری کے مابین کے ملتے ہیں۔ ہم نے بھی جن سے فیض حاصل کیا ہے وہ بھی اس زمانہ کے ہیں۔ پھر دس ہجری کے بعد بہت کم ہو گئے پھر چودھویں صدی میں تو خدا ہی حافظ صرف دکاندار ہی رہ گئے۔

 دکاندار صوفیہ تو بے حد ہیں جو رنگ نما رنگ فروش ہیں مگر رنگ ساز کوئی نہیں ہے۔ ہاں یہ ضروری ہوتا ہے کہ کسی کسی وقت جس طرح بارش رحمت کی برستی ہے اسی طرح تجلیات باری کی رحمت کا محل بھی یہ ہی لوگ ہوتے ہیں خدا تعالی ان کو وقتا فوقتا” پیدا کرتا رہتا ہے۔ ان کی حالت جس طرح انبیاء کی ہوتی ہے کوئی اولو العزم کوئی رسول کوئی نبی کوئی اول العزم رسول صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ رسول بھی دیر دیر بعد آتے ہیں انبیاء ہر زمانہ میں آتے رہتے ہیں ، ان کے خاتمہ پر جب انکا دور رسول خدا کی بعثت سے ختم ہوا تو پھر ہر قسم کی نبوت ختم ہو گئی اور انتقال رسول کے بعد زمین سخت روئی جیسا قاضی عیاض کی الشفافی الحقوق المصطفی اور اس کی شرح ملا علی قاری تنزیل مکہ میں اور نسیم الریاض علامہ شہاب خفاجی میں مذکور ہے کہ زمین کو رب العالمین نے تسلی دی کہ میں زمین پر صدیق پیدا کروں گا۔ قطب و حدت پیدا کروں گا تمہارے شیخ کا منصب بھی قطب وحدت ہے۔ اور افراد پیدا کروں گا قیوم پیدا کروں گا، غوث پیدا کروں گا کوئی قطب ارشاد ہو گا۔ اور ابدال بھی ہوں گے جو قطب ابدال کے چپڑاسی ہوں گے اور زمین کو خالی نہ چھوڑوں گا ان تمام نیچے والے طبقوں کو سب سے اونچی ہستی سے ملنا ہے اگر صدیق ہو تو جو آج موجود نہیں صدیق سے نیچے جاتا ہے اگر قطب وحدت ہو تو تمام کو اس سے فیض ملتا ہے اگر یہ نہ ہو تو غوث کی وجہ سے قیوم اور افراد اور قطب وحدت و صدیق یہ کہیں کہیں صدیوں بعد خدا تعالی پیدا کرتا ہے۔ یہ اولی العزموں کے مناصب ہیں ۔

باقی رہا آپ اپنے اپنے کاروبار میں باوجود مشغول ہونے کے اور روزی حرام کھانے کے اور بدکار لوگوں کی مجالس میں رہ کر گانے بجانے سن کر نظر کو حرام کا مرتکب بنا کر پھر بھی اس جماعت کے فرد ہیں اور ذکر کے انوارات سلب نہیں ہوتے۔ یہ بھی تمہارے شیخ کی قوت روحانی کی برکت ہے اور خدا کی مہربانی ہے ورنہ کہاں تم ملازم اور کہاں یہ نازک چیز۔۔ بیٹا خدا کا شکریہ ادا کریں۔ اپنی استقامت کی دعا کریں۔ اپنے رفقاء کو یہ خط سناتا پورا مضمون – حافظ غلام قادری سنا دے مگر خاص خاص رفقا کونہ عام کو ۔

Facebook Comments Box

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے