جواب: کلام باری کا نزول ہوتا تھا تو ساتھ تجلیات باری ہوتی تھیں ۔ تجلیات باری جب قلب اطہر رسول اللہ ﷺ پر آتی تھیں تو وہاں بھی خون میں حدت پیدا کرتی تھیں۔ وہاں بھی قلب اطہر کی حرکت تیز ہوتی تھی۔ وہاں بھی سانس تیزی سے چلنے لگتا تھا۔ کسی نے امام اعظم ابو حنیفہ کے بارے میں کہا تھا۔
                                         اسے روشنی طبع تو من بلا شدی
ایک کتاب کسی نے لکھی "حیات ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ آخر میں ساری بحث سمیٹتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ جو لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں، ان کا قصور نہیں۔ ان کے ارشادات اور ان کی ان مسائل کو سمجھنے کی Approach اتنی بلند ہے کہ علمی آدمی اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ان کی باتیں اتنی بلند ہوتی ہیں کہ عام آدمی ان کے خلاف فتوے دینے لگ جاتا ہے تو آخری مصرعہ جو انھوں نے نقل کیا اس میں حیات ابو حنیفہ میں انھوں نے لکھا کہ:
                                      اسے روشنی طبع تو من بلا شدی
یہاں بھی یہی بات ہے کہ حضرت کے ارشاد میں اتنی واضح اور مضبوط دلیل تھی اور آپ کو دلیل نظر ہی نہیں آئی۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے کسی کے پاس بیٹھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نبی اکرم ﷺنے پر جب کسی نئی آیت کا نزول ہوتا تھا تو پھر وہی کیفیت وارد ہو جاتی تھی۔ جو ہر وقت منبع نور ہیں۔ ہر وقت محبط تجلیات ہیں ہمہ وقت اللہ کی تجلیات کا مرکز ہیں۔ ان پر جب کوئی نئی آیت آتی تھی تو سارا حال پھر لوٹ آتا تھا۔ خون میں حدت پیدا ہوتی تھی ۔ قلب اطہر کا عمل تیز ہو جاتا تھا اور وہ تیزی آپ ﷺ کے عمل تنفس سے ظاہر ہوتی تھی۔ سانس مبارک تیز ہو جاتی تھی۔ تو اب اس قاعدے کو اساتذہ نے الٹایا کہ عمد اًسانس تیزی سے لو ۔ سانس تیزی سے لینے سے قلب تیزی سے حرکت کرے گا۔ جب تیزی سے حرکت کرے گا تو خون میں حدت پیدا ہوگی اور خون کی حدت ان انوارات کے ساتھ ربط پیدا کرے گی جو شیخ کی توجہ سے قلب پر پڑ رہے ہیں اور قلب انھیں زیادہ سے زیادہ جذب کرے گا۔
یہ سوال حضرت امیر محمد اکرم اعوان ؒ سے پوچھا گیا جس کا جواب آپ نے عنایت فرمایا۔

Facebook Comments Box

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے