جواب: ذکر کا مقصود کشف اور مشاہدات نہیں ہیں بلکہ کشف اور مشاہدہ ذکر سے ہو جاتا ہے۔ کشف ہو یا نہ ہو۔ مقصود وہ کیفیت ہے جو گناہ سے بچائے اور نیکی کا جذبہ دل میں مضبوط کرتی چلی جائے۔ کشف ہوتا ہی دین کی تفہیم اور سمجھ کے لیے ہے۔ آپ کسی صاحب کشف سے بات کریں گے تو وہ آپ کی بات کو جلدی سمجھ لے گا بہ نسبت دوسرے آدمی کے۔ یا جو سوال کریں گے اس کا جواب وہ دوسرے کی نسبت زیادہ اچھی طرح دے سکے گا۔ کیونکہ اس کے قلب میں وہ لطافت اور نزاکت ہے جو حقائق کو قبول کرتی ہے۔ کشف کا حال یہ ہوتا ہے۔ فرمایا

وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ

ایک لمحے میں ارض و سما کی ساری حکومت اور کائنات کھول کے رکھ دیں۔ وہی ابراہیم ہیں اور ان کا چھوٹا سا بیٹا اسمعیل ہیں اور وہ بھی نبی ہیں نہ انھیں بتایا کہ آپ کو ذبح نہیں ہوتا۔ نہ ہی ابرا ہیم کو چھری چلنے تک پتہ چلنے دیا کہ یہ بچ جائیں گے ۔ کشف میں پتہ چلنا چاہیے تھا لیکن اللہ نے پتہ نہیں چلنے دیا اگر یہ مانا جائے کہ پتہ تھا پھر تو کسی باپ کو بھی کہیں کہ تیرا بیٹا ذبح نہیں کرتا۔چھری لے کر اس کی گردن پر رکھو پھر دنبہ ذبح کریں گے ، یہ تو کوئی بھی کر دے گا۔ پھر اسمعیل کی تخصیص کیا ہے؟

اس اعتبار سے کشف کے معنی ہی پر دے کو ہٹاتا ہے اور اسے ہٹانا اللہ کریم کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ وہ چاہے تو بہت دور کی بات سمجھ میں آجائے نہ چاہے تو قریب کی بھی نہ آئے۔ حضرت رحمتہ اللہ نے ایک دن مجلس میں ایک ولی اللہ کا واقعہ سنایا، بڑی خوش مزاجی سے فرمانے لگے اس کشف کا یہ حال ہوتا ہے کہ ایک ولی اپنے بالا خانے میں بیٹھے دوستوں سے کہنے لگے کہ فلاں جنگل میں کچھ مسافر آ رہے ہیں۔ ڈاکوؤں نے لوٹ کر انھیں قتل کر دیا اور بڑا ظلم کیا۔ بات درست تھی کچھ ہی دیر بعد شور ہوا کہ جنگل میں چند لاشیں پڑی ہیں ۔ کوئی قافلہ لوٹا گیا ہے۔ اب اسی رات ان ولی اللہ کا بد کردار بیٹا قتل ہو گیا۔ قاتلوں نے اس کا سرکاٹ کر اندر ڈیوڑھی میں پھینک دیا۔ صبح ان کی بیوی نے دیکھا تو میاں پر بہت برسیں کہ دیکھ لی تیری فقیری۔ جنگل میں ڈاکوؤں کا ذکر کرتا رہا جبکہ یہاں میرا بیٹا مارا گیا اور تیری آنکھ بند رہی۔ ادھر تیرا کشف کہاں گیا۔“ اس معاملے میں بڑے بڑے عجیب واقعات ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جب لوگ کسی جنازے کے ساتھ قبرستان جاتے ہیں تو جتنی دیر میں قبر تیار ہوتی ہے باقی لوگ گپ شپ کرتے رتے ہیں تو اگر میں کسی جنازے کے ساتھ ہوں تو اس دورانیے کو استعمال کرتے ہوئے وہاں بیان دے دیتا ہوں۔ اسی طرح ایک دن کسی جنازے کے ساتھ قبرستان میں کوئی آدھ پون گھنٹہ بیان کرتا رہا۔ ہمارے ایک پرانے ساتھی بابا رمضان اللہ انھیں غریق رحمت کرے۔ وہ حیات تھے اور جنازے میں شریک تھے۔ ان کو مشاہدات تھے اور ایسے موقعوں پر ساتھی اکثر انھیں کریدتے رہتے تھے کہ اس قبر میں کیا ہے کون ہے؟ اس دن بھی واپسی پر ایسی ہی باتیں ہو رہی تھیں۔ میں ان کی طرف اتنا متوجہ نہیں تھا لیکن میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ اس قبر میں کوئی ملنگ ہے۔ ہمارے ہاں ملنگ باطل فرقوں کے ہوتے ہیں۔ میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ یہ ملنگ تو نہیں ہے یہ تو نجات میں نظر آتا ہے۔ بابا جی کہنے لگے کہ ملنگ سے میری مراد فقیر سا آدمی ہے۔ میں نے کہا کہ اس کا تو سینہ منور نظر آتا ہے۔ یہ تو اچھا بھلا آدمی نظر آتا ہے۔ یہاں سے گزر ہوتا رہتا ہے کبھی پو چھا ہی نہیں، بابا جی بھی کہنے لگے کہ اس کا دل روشن ہے پھر یہ پوچھنے پر کہ اس نے یہ انوار کہاں سے پائے ؟ وہ آدمی کہنے لگا کہ میرا شیخ یہ ساتھ والے قبرستان میں دفن ہے۔ ان کی خدمت میں رہ کر لطیفہ قلب روشن کیا۔ ساری عمر قلب پر ہی رہا اور اس پر میرا وصال ہوا۔ بابا جی نے وہیں کھڑے کھڑے ان کے شیخ کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ جس جگہ میں آدھ پون گھنٹہ کھڑا بیان دیتا رہا دو عین اسی جگہ دفن ہیں۔ بہت نیک اور سالک الحجفہ وبی کی آخری منازل تک ان کے مراقبات تھے اب پتہ نہیں کس زمانے کی وہ پرانی قبر تھی کیونکہ جہاں میں کھڑا ر ہا وہاں تو کوئی نشان نہ تھا۔ اب دہاں کھڑے ہوئے مجھے کچھ پتہ نہیں چلا اور میل دور سے مشاہدہ ہو گیا۔ میں نے ان کے شیخ سے کہا کہ اگر مجھے سمجھ نہیں آئی تھی تو آپ ہی متوجہ کر لیتے کہنے لگے کہ میں نے تو بہت کوشش کی۔ آپ نے میری طرف توجہ ہی نہیں کی۔ تو یہ اللہ کی اپنی شان ہے اس کی اس وسیع کائنات میں پتہ نہیں کتنے راز کہاں کہاں دفن ہیں ہر ایک کو تو کوئی نہیں جان سکتا ۔ تو کشف کی اصل دین کی سمجھ کے لیے ور اس پہچان کے لیے ہے کہ ایک گناہ کرنے سے کیا نقصان ہوا وہ کیفیات محسوس ہو جا ئیں۔ نیکی کرنے کا کیا لطف آتا ہے۔ وہ ایک شعور ایک ادر اک ایک احساس پیدا ہو جاتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو آدمی گومگو کی کیفیت میں رہتا ہے کہ ہی علماء کہتے ہیں ثواب ہوگا ۔ پتہ نہیں ہوگا بھی کہ نہیں۔ تو اس گومگو سے یہ مشاہدہ آدمی کو آگے یقین تک لے جاتا ہے۔

Facebook Comments Box

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے