جواب: حضرت امیر محمد اکرام اعوان ؒ(محفل شیخ سے انتحاب)

میرے بھائی! انسانی جسم کے وہ پانچ حصے جنھیں حواس خمسہ کہتے ہیں وہ چھونے، چکھنے، سونگھنے، دیکھنے اور سننے کی صلاحیتیں ہیں۔ اسی طرح ایک صلاحیت اور بھی ہے جو سوچنے کی ہے یہ ساری صلاحیتیں جو کچھ بھی محسوس کرتی ہیں اس کا اثر براہ راست دل پر مرتب ہوتا ہے۔ آنکھ کوئی خوبصورت چیز یا اچھا پھول یا اچھی تصویر یا اچھے گھر کو دیکھتی ہے تو اس سے دل بھی خوش ہوتا ہے۔ کوئی برائی دیکھتی ہے تو اس سے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ کان اچھی بری آواز سنتا ہے تو اس کا دل پر اثر ہوتا ہے ۔ زبان سے اچھے برے الفاظ نکلیں تو دل پر اثر مرتب ہوتا ہے اس طرح دماغ کی سوچیں بھی دل کو متاثر کرتی ہیں تو ذکر کے وقت جو کہا جاتا ہے کہ آنکھ بھی بند ہو زبان بھی بند ہو اور سوچ بھی اس بات پر مرتکز کر دی جائے کہ اللہ ھو ہو رہا ہے یا اس کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی جسم کو حرکت بھی دینا شروع کر دیں تو یہ سارے حیلے حوالے والے ہیں کہ خارجی اثرات دل پر کم سے کم مرتب ہوں اور جو توجہ ہو رہی ہے دوران ذکر وہ قلب کرے گا۔ جب بھی خارجی اثرات قلب پر آئیں گے اور قلب ان کی طرح متوجہ ہوگا تو ذکر اللہ سے رابطہ کٹ جائے گا۔ چونکہ جب دل میں یکسوئی نصیب ہوتی ہے تو سمجھ نہیں آتی کتنی دیر گزرگئی ہے۔ گرمی سردی یا اردگرد کیا ہورہا ہے سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قلب ایک وقت میں صرف ایک ہی طرف متوجہ رہ سکتا ہے۔ ارتکاز توجہ یا Power of concentration در اصل یوگا میں ہندوؤں کی عبادتوں اور مجاہدوں کا ایک شعبہ ہے۔ یہ ایک طرح کی ذہنی ورزشیں ہیں جو ٹیلی پیتھی بھی کہلاتی ہیں ۔ یہ پوری دماغی صلاحیت کو ایک نقطے پر مرتکز کر کے دیکھتے رہنے سے آتی ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ لوگ ایک ہی نقطے کو پانچ منٹ دس منٹ، پندرہ منٹ اور بڑھاتے بڑھاتے گھنٹوں تک لے جاتے ہیں پھر موم بتی رکھ کر دیکھتے رہتے ہیں جو بہت ماہر ہو جاتے ہیں وہ سورج کو گھنٹوں دیکھ سکتے ہیں اور یہ ساری پریکٹس وہ دماغی صلاحیتوں کو ایک نقطے پر مرتکز کرنے کے لیے کرتے ہیں جب یہ دماغی صلاحیت ان میں آجاتی ہے تو اس کو استعمال کرتے ہوئے وہ دوسروں کے ذہنوں میں اپنی سوچ القاء کرنے یا دوسروں سے ان کے منصوبوں کو Suck کرنے کی اہمیت کسی حد تک پالیتے ہیں۔ اس زمانے میں یہ کام آپ مشینوں سے بھی لے رہے ہیں جیسے ٹیلی ویژن پر دنیا کے ایک سرے پہ بیٹھے آپ دوسرے سرے پر ہوتی گیم دیکھ لیتے ہیں اسی طرح ارتکاز توجہ والا بغیر ٹیلی ویژن کے دیکھ سکتا ہے یہ ممکن ہے۔ آپ ٹیلی فون سے دنیا کے دوسرے سرے کی بات سن سکتے ہیں اور ارتکاز توجہ والا اس کے بغیر بھی سن سکتا ہے۔ افریقہ میں ابھی تک ایک قبیلہ ایسا ہے جن میں یہ ارتکاز توجہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور ان کا مذہب قبل تاریخ کا ہے۔ ان میں آج بھی یہ طریقہ کار رائج ہے کہ گھر سے جب کوئی نکلتا ہے تو آپس میں وقت مقرر کر لیا جاتا ہے کہ فلاں وقت میں تم سے رابطہ کروں گا۔ اس وقت دوسرا بھی متوجہ ہو جاتا ہے۔ خواہ دو سو میل دور ہو جونہی وہ ایک دوسرے کی طرف توجہ کرتے ہیں تو وہ بات کر لیتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ممکن ہے۔ مادی قوت سے جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہی ارتکاز توجہ سے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عقل مادی ہے البتہ ارتکاز توجہ سے برزخ ، ملائکہ، بالائے آسمان یا تجلیات باری کا مشاہدہ ممکن نہیں۔

Facebook Comments Box

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے