حضرت امیر محمد اکرام اعوانؒ(محفل شیخ سے انتحاب)
جواب: علمی وراثت کے بارے میں ایک اصولی بات سمجھ لیں ۔ نبی کریم ﷺ اور امت کے در میان صحابہ کرام ایک واسطہ ہیں۔ نبی کریم ﷺنے جو دولت بانٹی اور لٹائی ہے وہ امت کو صحابہ کرام کے ذریعے ہی پہنچی ۔ اگر یہ درمیانی واسطہ قابل اعتبار نہ ہو تو سارا دین ہی قابل اعتبار نہیں رہتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس درمیانی واسطہ کو کیا اللہ کریم نے اور رسول کریم ﷺ نے قابل اعتبار قرار دیا ہے اور اگر قرار دیا ہے تو اس میں شک کرنا کسی طرح مناسب نہیں ۔ قرآن کریم کی سو سے زیادہ آیات اس امر پر شاہد ہیں کہ صحابہ قابل اعتبار ہی نہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کی عطا کردہ دولت کے امین ہیں اور اسے مخلوق تک پہنچانا ان کے فرائض میں داخل ہے اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو آپ نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبے کے دوران سارے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جو موجود ہیں وہ ان تک پہنچائیں جو موجود نہیں۔ یعنی حضور اکرم ﷺ نے سارے صحابہ کو دینی علوم کا وارث قرار دیا اور امت کو اس کی ضمانت دی کہ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اِقْتَدَيْتُمْ اِهْتَدَيْتُمْ کہ میرے صحابہ  ستاروں کی مانند ہیں۔ جس کا دامن تھام لو گے تمھیں منزل مقصود تک پہنچا دے گا ۔ اب یہ فیصلہ امت کو خود کرتا ہے کہ وہ اللہ و رسول ﷺ کی بات پر اعتماد کرے یا عام انسانوں کی رائے کو اپنائے۔

Facebook Comments Box

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے