جواب : حضرت امیر محمد اکرم اعوانؒ
جہاں قرآن میں حج کا حکم ہے اگر اس کے ذرائع اختیار کرنے کی تفصیل قرآن میں ہوگی تو وہاں ذکر کرنے کے سارے طریقے لکھے ہوں گے ۔ قرآن حکیم میں وضو کا حکم ہے نماز کے لیے وضو کے لیے کنویں کھود نے یا لگانے کا حکم کہاں ہے؟ دریا سے پانی لینے کا یا نہر سے پانی لینے کا حکم کہاں ہے؟ قرآن پاک میں مقاصد کا ذکر ہے، ذرائع کا نہیں، ذرائع کے لیے ایک ہی قید ہے کہ کوئی غیر شرعی کام اس بہانے نہ ہو۔ ہمیں نماز پڑھنی ہے ایک پیاسا مر رہا ہے اس سے پانی چھین . لیں؟ نہیں۔ پانی نہیں ہے تو تیم کر لیں، پیا سانہیں دینا چاہتا اس کا حق ہے کہ وہ نہ دے۔ آپ اس سے نہ چھینیں لیکن ان چیزوں پر قیود شرعی حلت و حرمت جائز و نا جائز کی تو وارد ہوتی ہیں ذرائع کا کوئی مخصوص طریقہ قرآن و حدیث میں زیر بحث نہیں آتا ۔ قرآن وحدیث میں مقاصد آتے ہیں مسجد بنانا مقصد ہے اس کے لیے دیواریں پتھروں کی ہونگی یا اینٹوں کی چوٹا لگے گا یا نہیں لگے گا اسے آپ سیمنٹ سے بنائیں گے یا گارے سے بنائیں گئے اس پر لکڑی کی چھت ڈالیں گئے لوہے کی ڈالیں گے۔ اب کوئی آدمی کہے گا کہ لینٹر کی سند قرآن وحدیث سے لوتو یہ بچوں کی سی بات ہے۔ قرآن نے تو بڑا سمپل بڑا سادہ کہا ہے اور بار بار کہا ہے کہ : وَاذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْراً كبيراً ، زندگی میں جتنے کام آپ کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ کثرت سے جو کام کرو، وہ ذکر الہی ہے۔ سوتے ہوئے کرو، ہر حال میں کرو۔ الذِينَ يَذْكُرُونَ الله قِيَامًا وَقُعُوداً وَعَلَى جَنوبِهِمْ قرآن نے پابندی نہیں لگائی کہ کوئی تیزی سے سانس لے رہا ہے کوئی آہستہ لے رہا ہے بلکہ قلب سے ذکر کرنے کو افضل قرار دیا ہے اور ضروری قرار دیا ہے۔ فرمایا:
وَلَا تُطِعُ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ مِنْ ذِكْرِنَا. جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا گویا یہ گناہ کی کی جرم کی یا کسی کو تاہی کی سزا ہےکہ قلب کو ذکر کی توفیق نہ ہو اور ساتھ نبی کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا کہ ایسوں کی بات کو پرکاہ وقعت نہ دی جائے۔ اس کی پرواہ نہ کی جائے وہ اس قابل ہوتا تو ہم اس کے دل سے اپنی یاد کیوں نکال لیتے۔ یہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کی بات سنی جائے۔ حضور ﷺ نے حدیث تو ارشاد فرمائی لیکن عہد نبوی ہے میں بخاری شریف تو نہیں تھی ۔ اب اگر بخاری و مسلم (خودان کتابوں) کی سند چاہیے تو وہ کہاں سے آئے گی۔ اب یہ جو ہمارے مروجہ دینی مدارس ہیں جو قرآن و حدیث پڑھاتے ہیں۔ ان کی کوئی سند تلاش کریں تو حیات نبوی ہے میں تو کوئی مدرسہ اس طرح کا مروجہ نہیں ملتا جہاں ایک استاد صرف و نحو پڑھاتا ہے۔ ایک استاد حدیث پڑھاتا ہے ایک استاد تفسیر پڑھاتا ہے ایک استاد حفظ کراتا ہے۔ اتنے کوئی شعبے نہیں ملتے ایک ہی استاد ہے ایک ہی سکول ہے۔ ایک ہی مدرسہ ایک ہی مسجد نبوی ہی ہے۔ ایک ہی استاد ﷺہیں ۔ وہیں جنگ کی تربیت بھی ہو رہی ہے۔ فوجوں کی بھی ہورہی ہے۔ پڑھایا بھی جا رہا ہے۔ قرآن بھی آ رہا ہے۔ حدیث بھی ہو رہی ہے۔ سب کچھ ایک ہی جگہ ہورہا ہے تو اب کیوں الگ الگ مدرسوں کا اہتمام کیا گیا ہے؟ اس کی سند کہاں ہے؟ یہ ذرائع ہیں۔ ذرائع کے لیے سند کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لیے جواز کافی ہے کہ وہ کام شرعاً جائز ہو۔ نا جائز نہ ہو، سند کی ضرورت مقاصد کے لیے ہوتی ہے۔ مقصد کو ذریعے سے الگ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے۔ حج کرنا مقصد ہے جس پر فرض ہے اسے کرتا ہے۔ اب کوئی گھوڑے پر جاتا ہے۔ اونٹ پر جاتا ہے گاڑی پر جاتا ہے، جہاز پر جاتا ہے اس سے قرآن کو غرض نہیں ہے۔ نہ اس کا جہاز پر جانے سے ثواب بڑھ جائے گا۔ نہ گھوڑے پر جانے سے کم ہو جائے گا، نہ پیدل جانے سے زیادہ ہوگا ۔ نہ بیٹھ کر جانے سے کم ہوگا۔ بلکہ یہ تو جہالت کی باتیں ہیں۔ اللہ کریم نئے نئے اسباب و ذرائع دیتا ہے۔ اسی طرح مقصد ذکر الہی کرتا ہے۔ اس کے لیے ذریعہ (شرعی حدود میں ) کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اور جس قدر مستند کام اور جس قدر مدلل کام صوفیاء نے اور مشائخ حضرات نے کیے ہیں اتنی احتیاط علمائے ظواہر کر ہی نہیں سکتے۔ علماء ظواہر کے پاس ایک ذریعہ اور ایک سورس (Sourceہوتا ہے۔ وہ ہوتا ہے تقلی اور کتابی جبکہ صوفیاء کے پاس دو ذریعے ہوتے ہیں تقلی اورکتابی بھی اور کیفی بھی۔ یہ جہاں سنت کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں ان لوگوں کے قلوب اور ان کی کیفیات متاثر ہوتی ہیں اور یہ فورا وہاں رُک جاتے ہیں کہ بات صحیح نہیں ہے اور کتنی ایسی باتیں آپ کو صوفیاء کی تحریروں میں ملتی ہیں جنھیں علمائے ظلوا ہر جائز کہتے ہیں اور صوفی درست نہیں سمجھتے۔ ایسی حدیثیں ملتی ہیں جن کی سندیں جو ہیں وہ نہیں پکڑی جاتیں۔ لیکن صوفیاء نے کہہ دیا کہ ان میں حضور ﷺ کے انوارات نہیں ہیں ۔ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ایسی احادیث ملتی ہیں۔